تعریف:
روزمرہ اس بول چال اور اسلوب بیان کو کہتے ہیں جو خاص اہل زبان استعمال کرتے ہیں۔ اس میں قیاس کو دخل نہیں بلکہ سماعت پر دار و مدار ہے۔ مثلاً بلا ناغہ پر قیاس کر کے اس کی جگہ بے ناغہ اور روز روز کی جگہ دن دن نہیں کہا جا سکتا کیوں کہ اہلِ زبان کے یہاں یہ الفاظ بول چال میں اس طرح کبھی نہیں آتے ۔
وضاحت:
روز مرہ اہل زبان کی اس بات چیت کا نام ہے جس کے مطابق بولنا ہی درست تسلیم کیا جائے ۔ روزمرہ میں الفاظ کے استعمال کا ایک خاص انداز ہوتا ہے لیکن وہ الفاظ اپنے لغوی اور اصلی معنی دیتے ہیں۔ تحریر و تقریر میں اور نظم و نثر میں جہاں تک ممکن ہو، روز مرہ کی پابندی کو ضروری سمجھا جاتا ہے۔ کلام میں جس قدر روز مرہ کی پابندی کم ہوگی ، اسی قدر وہ فصاحت کے درجے سے ساقط سمجھا جائے گا۔ روز مرہ قواعد زبان کے اصولوں سے بالا ہوتا ہے یعنی اس پر قواعد کے اصول وضوابط کا اطلاق نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے کسوٹی اہل زبان کا اسلوب بیان ہی ہے۔
ہر محاورہ روزمرہ بھی ہوتا ہے لیکن ہر روز مرہ کا محاورہ ہونا ضروری نہیں ہوتا۔
مثالیں:
- ”میری چشم میں درد ہے۔ “ یہ جملہ روز مرہ کے خلاف ہے کیوں کہ اہلِ زبان اس طرح کبھی نہیں بولتے ۔
درست یوں ہے : ”میری آنکھ میں درد ہے۔“ - ”عابد اور ساجد کی عمروں میں اٹھارہ بیس کا فرق ہے۔“ یہ جملہ بھی غلط ہے۔ درست یوں ہے: ”عابد اور ساجد کی عمروں میں انیس بیس کا فرق ہے۔“ کیوں کہ اہل زبان معمولی فرق کو واضح کرنے کے لیے انہیں میں کا فرق ہی کہتے ہیں۔
- ”میرے ساتھ چار پانچ مت کرو ۔“ (غلط) ” میرے ساتھ تین پانچ مت کرو ۔ “ ( درست )
- ”آپ نا وقت آئے ہیں ۔ “ ( غلط ) ” آپ بے وقت آئے ہیں۔“ (درست)
- ”لڑکی نے دو پٹا پہنا ۔“ (غلط) ”لڑکی نے دو پٹا اوڑھا۔“ (درست)
- ”سڑکوں پر آئے روز حادثات ہوتے رہتے ہیں۔“ (غلط) ”سڑکوں پر آئے دن حادثات ہوتے رہتے ہیں۔“ (درست)