| شب وصل تھی چاندنی کا سماں تھا |
| بغل میں صنم تھا خدا مہرباں تھا |
| مبارک شب قدر سے بھی وہ شب تھی |
| سحر تک مہ و مشتری کا قراں تھا |
| وہ شب تھی کہ تھی روشنی جس میں دن کی |
| زمیں پر سے اک نور تا آسماں تھا |
| نکالے تھے دو چاند اس نے مقابل |
| وہ شب صبح جنت کا جس پر گماں تھا |
| عروسی کی شب کی حلاوت تھی حاصل |
| فرح ناک تھی روح دل شادماں تھا |
| مشاہد جمال پری کی تھی آنکھیں |
| مکان وصال اک طلسمی مکاں تھا |
| حضوری نگاہوں کو دیدار سے تھی |
| کھلا تھا وہ پردہ کہ جو درمیاں تھا |
| کیا تھا اسے بوسہ بازی نے پیدا |
| کمر کی طرح سے جو غائب دہاں تھا |
| حقیقت دکھاتا تھا عشق مجازی |
| نہاں جس کو سمجھے ہوئے تھے عیاں تھا |
| بیاں خواب کی طرح جو کر رہا ہے |
| یہ قصہ ہے جب کا کہ آتشؔ جواں تھا |
2024-08-24