| کیا کیا نہ رنگ تیرے طلب گار لا چکے |
| مستوں کو جوش صوفیوں کو حال آ چکے |
| ہستی کو مثل نقش کف پا مٹا چکے |
| عاشق نقاب شاہد مقصود اٹھا چکے |
| کعبے سے دیر دیر سے کعبے کو جا چکے |
| کیا کیا نہ اس دوراہے میں ہم پھیر کھا چکے |
| گستاخ ہاتھ طوق کمر یار کے ہوئے |
| حد ادب سے پاؤں کو آگے بڑھا چکے |
| کنعاں سے شہر مصر میں یوسف کو لے گئے |
| بازار میں بھی حسن کو آخر دکھا چکے |
| پہنچے تڑپ تڑپ کے بھی جلاد تک نہ ہم |
| طاقت سے ہاتھ پاؤں زیادہ ہلا چکے |
| ہوتی ہے تن میں روح پیام اجل سے شاد |
| دن وعدۂ وصال کے نزدیک آ چکے |
| پیمانہ میری عمر کا لبریز ہو کہیں |
| ساقی مجھے بھی اب تو پیالہ پلا چکے |
| دیوانہ جانتے ہیں ترا ہوشیار انہیں |
| جامے کو جسم کے بھی جو پرزے اڑا چکے |
| بے وجہ ہر دم آئنہ پیش نظر نہیں |
| سمجھے ہم آپ آنکھوں میں اپنی سما چکے |
| اس دل ربا سے وصل ہوا دے کے جان کو |
| یوسف کو مول لے چکے قیمت چکا چکے |
| اٹھا نقاب چہرۂ زیبائے یار سے |
| دیوار درمیاں جو تھی ہم اس کو ڈھا چکے |
| زیر زمیں بھی تڑپیں گے اے آسمان حسن |
| بیتاب تیرے گور میں بھی چین پا چکے |
| آرائش جمال بلا کا نزول ہے |
| اندھیر کر دیا جو وہ مسی لگا چکے |
| دو ابرو اور دو لب جاں بخش یار کے |
| زندوں کو قتل کر چکے مردے جلا چکے |
| مجبور کر دیا ہے محبت نے یار کی |
| باہر ہم اختیار سے ہیں اپنے جا چکے |
| صدموں نے عشق حسن کے دم کر دیا فنا |
| آتشؔ سزا گناہ محبت کی پا چکے |
2024-10-09