اکرام الحق، 15 جنوری 2017
اردو کے پانچ بہترین ناول:
اردو دنیا کی بڑی زبانوں کے مقابلے میں ابھی بہت کم عمر ہے اور یہی وجہ ہے کہ ناول نگاری جیسی مشکل صنف میں اردو پر بہت کم کام ہوا ہے۔ ابھی دو، تین دہائیاں پہلے تو یہ تک کہا جاتا تھا کہ اردو کے بہترین ناولوں کی فہرست تک تیار نہیں ہو سکتی کیونکہ اردو میں اتنے ناول لکھے ہی نہیں گئے۔ اب ایسا بھی نہیں ہے، اردو کے متعدد ناول ایسے ہیں جنہیں دنیا کے کسی بھی ادب کے سامنے رکھا جا سکتا ہے۔
اگر آپ اردو ناول پڑھنا چاہتے ہیں تو یہ پانچ ناول ایسے ہیں، جو آپ کو لازماً پڑھنے چاہئیں۔ انہیں ہم بہترین بھی کہہ سکتے ہیں، عظيم بھی اور مطالعے کے لیے ضروری بھی۔ ان ناولوں کی جڑیں ہماری تاریخ میں پیوست ہیں اور یہ ہمیں اپنی تہذیب، روایات اور تاریخ سے جوڑتے ہیں۔
ہوسکتا ہے تمام قارئین اس فہرست سے اتفاق نہ کریں، یہ اختلاف ہونا بھی چاہیے، اس لیے اسے ہماری تجویز یا ذاتی رائے سمجھ لیں:
آگے سمندر ہے
تقسیم ہند ہماری کی تاریخ کا اہم ترین واقعہ ہے جس طرح جنگ عظیم کو مغرب کی تاریخ کا اہم حصہ تصور کیا جاتا ہے اور اس پر بہت ادب بھی تخلیق ہوا ہے۔ اردو میں تقسیم ہند کے موضوع پر متعدد بڑے ناول لکھے گئے جن میں انتظار حسین کا ‘آگے سمندر ہے’ بھی قابل ذکر ہے۔ یہ جواد حسین نامی ایک نوجوان کی کہانی ہے جو 1947ء میں ہندوستان چھوڑ کر اپنے خوابوں کی سرزمین پاکستان آتا ہے لیکن چند دہائیوں کے بعد کراچی میں امن و امان کی صورت حال بگڑ جاتی ہے اور یوں ایک ناقابل فراموش کہانی شروع ہوتی ہے۔ انتظار حسین خود بھی مہاجر تھے اور ” آگے سمندر ہے ” مطلب ہے جو ہجرت کرکے ہندوستان سے پاکستان آئے، ان کے پاس اب آگے سمندر کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔
اداس نسلیں
عبد اللہ حسین کا یہ شاہکار ناول بھی تقسیم ہند سے قبل اور بعد کے دور کا احاطہ کرتا ہے لیکن اس کا موضوع کچھ مختلف ہے، یہ نئی نسل کا نوحہ ہے جو ہر حال میں اداس ہے۔ گو کہ اس ناول پر سخت اعتراضات بھی ہوئے، یہاں تک کہ سرقے کے الزامات تک لگائے گئے لیکن کوئی چیز "اداس نسلیں” کی شہرت کم نہ کرسکی۔ اس ناول کی کہانی غیر منقسم ہندوستان کی شہری و دیہاتی تہذیب سے شروع ہوتی ہے اور پھر مرکزی کردار کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو چھوتی ہوئی اپنے انجام تک پہنچتی ہے۔ عبد اللہ حسین کے انتقال کے ساتھ ہی یہ ناول ایک مرتبہ پھر مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا۔
آگ کا دریا
اسے اردو کے اہم ترین ناولوں میں سے ایک مانا جاتا ہے جسے ہندوستان کی معروف مصنفہ قرۃ العین حیدر نے لکھا۔ ہندوستان کی ڈھائی ہزار سالہ تاریخ کو بیان کرتا ہے، کلاسیکی، ازمنہ وسطیٰ، نوآبادیاتی اور جدید دور۔ یہ ان چار مختلف عہدوں میں چار کرداروں کو ظاہر کرتا ہے جن کے نام گوتم، چمپا، کمال اور سائرل ہیں۔ مختلف عہد میں ان چاروں کے باہمی تعلق کو بیان کرنا یہ ناول قرۃ العین کو اردو ادب کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک بنا گیا۔
بہاؤ
مستنصر حسین تارڑ کی عام شہرت تو ایک سفرنامہ نگار اور ٹیلی وژن میزبان کی حیثیت سے رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ "بہاؤ” جیسا شاہکار تخلیق کرکے اردو ناول نگاری میں بھی خود کو منوایا ہے۔ اس کا موضوع ہزاروں سال قبل دریائے سندھ کی وہ تہذیب ہے جو اپنے عروج پر پہنچنے ے بعد ختم ہوگئی۔ ناول دریائے گھاگھرا کے کنارے ایک چھوٹا گاؤں گاؤں کے چند کرداروں پر مشتمل ہے اور حیرت ہوتی ہے کہ اتنے سادہ موضوع پر ایسا ناول تارڑ نے کیسے تخلیق کیا۔ تارڑ بتاتے ہیں کہ "بہاؤ” کے لیے انہوں نے 12 سال تحقیق تھی۔ جب یہ ناول مکمل ہوا تو بانو قدسیہ جیسی عظیم مصنفہ نے تارڑ کو کہا کہ”اب دوبارہ کوئی ناول نہ لکھنا، تمہارے لیے یہی کافی ہے۔” گو کہ تارڑ نے بعد میں تقسیم ہنداور سقوط ڈھاکہ کے موضوع پر”راکھ” جیسا ناول بھی تخلیق کیا جو کافی مقبول بھی ہوا لیکن "بہاؤ” کو اس لحاظ سے ہمیشہ "راکھ” پر برتری حاصل رہے گی کیونکہ اس کی کہانی بالکل سادہ ہے لیکن پھر بھی اپنے قاری کو ایسے گرفت میں لے لیتی ہے کہ وہ ناول مکمل کرنے کے بعد بھی ہفتوں تک اس کے سحر سے نہیں نکل پاتا۔
راجہ گدھ
بانو قدسیہ کا مشہور ترین ناول جسے بلاشبہ اردو کا عظیم ترین ناول سمجھنا چاہیے۔ بانو نے اس ناول کے ذریعے حلال و حرام کے تصور کو ایک نئے معنی دیے ہیں کہ یہ کس طرح انسان کی آنے والی نسلوں میں جینیاتی بگاڑ کا باعث بنتا ہے۔ اس مرکزی موضوع سے ہٹ کر ناول لاہور اور اس کےاردگرد کئی سماجی و تہذیبی پہلوؤں کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ یہ لاہور کے ایک تعلیمی ادارے میں ساتھ پڑھنے والے چند دوستوں کی کہانی ہے جن کی عملی زندگیاں کئی پہلوؤں کو آشکار کرتی ہیں۔