خواجہ حیدر علی آتش

خواجہ حیدر علی آتش
پیدائش1764ء فیض آباد ، اتر پردیش
وفات 14 جنوری 1846ء ، لکھنؤ اتر پردیش
اصل نام خواجہ حیدر علی
تخلصآتش
استادغلام ہمدانی مصحفی

آتش کا نام خواجہ حیدر علی تھا اور ان کے والد کا نام علی بخش بتایا جاتا ہے۔ ان کے بزرگوں کا وطن بغداد تھا، جو تلاش معاش میں دہلی آئے تھےاور شجاع الدولہ کے عہد میں فیض آباد چلے گئے تھے۔ آتش کی پیدایش فیض آباد میں ہوئی۔

حالات زندگی

آتش گورے چٹے، خوبصورت، کشیدہ قامت اور چھریرے بدن کے تھے۔ ابھی پوری طرح جوان نہ ہو پائے تھے کہ والد کا انتقال ہو گیا اور تعلیم مکمل نہ ہو پائی۔ دوستوں کی ترغیب سے درسی کتابیں دیکھتے رہے۔ کسی نگراں کی عدم موجودگی میں ان کے مزاج میں آوارگی آگئی۔ وہ بانکے اور شورہ پشت ہو گئے۔ اس زمانہ میں بانکپن اور بہادری کی بڑی قدر تھی۔ بات بات پر تلوار کھینچ لیتے تھے اور کم سنی سے تلوارئے مشہور ہو گئےتھے۔

آتش کی صلاحیتوں اور سپاہیانہ بانکپن نے نواب مرزا محمد تقی خاں ترقی، رئیس فیض آباد، کو متاثر کیا جنہوں نے ان کو اپنے پاس ملازم رکھ لیا۔ پھر جب نواب موصوف فیض آباد چھوڑ کر لکھنؤ آ گئے تو آتش بھی ان کے ساتھ لکھنؤ منتقل ہو گئے۔

شاعری کا ذوق

لکھنؤ میں اس وقت مصحفی اور انشاء کی معرکہ آرائیوں کو دیکھ کر انھیں شاعری کا شوق پیدا ہوا۔ انہوں نے شاعری نسبتاً دیر سے، تقریباً 29 سال کی عمر میں شروع کی اور مصحفی کے شاگرد ہو گئے۔ لکھنؤ میں رفتہ رفتہ ان کی صحبت بھی بدل گئی اور مطالعہ کا شوق پیدا ہوا اور رات دن علمی مباحث میں مصروف رہنے لگے۔ مزاج میں گرمی اب بھی باقی تھی اور کبھی کبھی استاد سے بھی نوک جھونک ہو جاتی تھی۔

دربار سے دوری

لکھنؤ پہنچنے کے چند سال بعد ترقی کا انتقال ہو گیا، جس کے بعد آتش نے آزاد رہنا پسند کیا، کسی کی نوکری نہیں کی۔ بعض تذکروں کے مطابق واجد علی شاہ اپنے ایام شہزادگی سے ہی 80 روپے ماہانہ دیتے تھے۔ کچھ مدد مداحوں کی طرف سے بھی ہو جاتی تھی لیکن آخری ایام میں توکل پر گزارہ تھا، پھر بھی گھر کے باہر ایک گھوڑا ضرور بندھا رہتا تھا۔ سپاہیانہ، رندانہ اور آزادانہ وضع رکھتے تھے جس کے ساتھ ساتھ کچھ رنگ فقیری کا تھا۔ بڑھاپے تک تلوار کمر میں باندھ کر سپاہیانہ بانکپن نباہتے رہے۔ ایک بانکی ٹوپی بھنووں پر رکھے جدھر جی چاہتا نکل جاتے۔ اپنے زمانہ میں بطور شاعر ان کی بڑی قدر تھی لیکن انہوں نے جاہ و حشمت کی خواہش کبھی نہیں کی، نہ امیروں کے دربار میں حاضر ہو کر غزلیں سنائیں نہ کبھی کسی کی ہجو لکھی۔ استغنا کا یہ حال تھا کہ بادشاہ نے کئی بار بلوایا مگر یہ نہیں گئے۔ ان کا ایک بیٹا تھا جس کا نام محمد علی اور جوش تخلص تھا۔

تصانیف

کلیات آتش: آتش کی شاعری کی کلیات دو دیوانوں پر مشتمل ہے ۔
پہلا دیوان: پہلا دیوان آتش کی زندگی میں ہی شائع ہوا ۔
دوسرا دیوان: یہ دوسرا دیوان آتش کی وفات کے بعد شائع ہوا ۔

وفات

آخری عمر میں بینائی جاتی رہی تھی۔ آتش نے ل14 جنوری 1846ء لکھنؤ میں صبح کو اپنے مکان سکونہ میں انتقال کیا۔ آتش کے انتقال پر رشک نے تاریخ کہی ” خواجہ حیدر علی اے وا مردند ” ۔

آتشؔ کے متعلق مختلف آرا و خیالات

فراقؔ نے آتشؔ کو اخلاقی شاعری کا بادشاہ کہا ہے ۔
مصحفیؔ نے آتش کو ’’وجیہہ مہندالاخلاق ‘‘ لکھا ہے۔ عبدالسلام ندوی نے آتشؔ کو اُردو شاعری کا حافظ لکھا ہے ۔
رام بابو سکسینہ کا کہنا ہے کہ ’’آتشؔ کے کلام میں ترشے ہوئے الفاظ ،آبدار موتیوں کی طرح لڑی میں پروئے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔‘‘
مرزا غالبؔ آتشؔ کو ان شعرا کی صف میں کھڑا کرتے ہیں جن کی شاعری فارسی شعرا کی طرح ’’چیز دگر‘‘ کے ذیل میں آتی ہے۔
آتشؔ کا کلام متین اور سنجیدہ ہے ۔(مصحفیؔ)۔ عبدالسلام ندوی نے آتشؔ کی شاعری کو عشق ومحبت کا آئینہ قرار دیا ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے