Skip to content

غزل کی تعریف اور خصوصیات

غزل کی تعریف:

غزل عربی زبان کے لفظ ’’غزال‘‘ سے اخذ کیا گیا ہے جسکے معنی عورتوں سے باتیں کرنا یا عورتوں کی باتیں کرنا ہے۔ غزل اس چیخ کو بھی کہتے ہیں جو شکاری کے ڈر سے ہرن کی منہ سے نکلتی ہے۔ شاعری کی اصطلاح میں غزل اس صنف نظم کو کہا جاتا ہے جس کا ہر ایک شعر الگ اور مکمل مضموں رکھتا ہو۔ جس میں عشق و عاشقی کی باتیں (خواہ وہ عشق مجازی ہو یا عشقِ حقیقی) بیان ہوئی ہو۔
غزل کے لغوی معنی ” عورتوں سے باتیں کرنا ، عورتوں کے حسن و جمال کی تعریف کرنا “ کے ہیں ۔شکاری کتوں میں گھرے ہرن کے حلق سے جو درد ناک ، حیرت انگیز اور پُر سوز آواز نکلتی ہے اُسے بھی غزل کہتے ہیں ۔
اصطلاح میں غزل سے مراد وہ کلام جو ایک ہی وزن اور ایک ہی بحر میں ہو ۔ غزل کا پہلا شعر مطلع کہلاتا ہے ، مطلع کے علاوہ باقی تمام اشعار کے مصرعہ ثانی میں ہم قافیہ کا ہونا ضروری ہے ۔ غزل کا ہر شعر مکمل اکاٸی ہوتا ہے ، یعنی غزل کے اگر چھ ( ٦ ) اشعار ہیں تو ہر شعر کا مفہوم مکمل بھی ہو گا اور دوسرے اشعار سے مختلف بھی ۔
غزل کا آخری شعر مقطع کہلاتا ہے جس میں شاعر بالعموم اپنا تخلص استعمال کرتا ہے ۔ ویسے درمیانی اشعار میں بھی مقطعے لاۓ جا سکتے ہیں ۔ بعض غزلیں غیر مردّف ( بغیر ردیف کے ) بھی ہوتی ہیں ۔ اور بعض غزلیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کے دو تین یا ساری غزل کے اشعار کا مفہوم مل رہا ہوتا ہے ، ایسی غزلیں ” غزلِ مسلسل “ کہلاتی ہیں ۔

غزل کی خصوصیات:

تنوع اور نگارگی

غزل کا ہر شعر اپنی جگہ خیال و موضوع کے اعتبار سے مکمل ہوتا ہے۔ نظم کی مانند غزل کے اشعار تسلسل خیال سے محروم ہوتے ہیں۔ غزل کے اشعار میں کوئی شعر شاعر کی واردات قلبی اور کیفیات ذہنی کی عکاسی کرتا ہے اور کوئی محبوب کی چال ڈھال اور گفتگو کا مرقع ہوتا ہے۔
کسی شعر میں انسانی غم کی ترجمانی ہوتی ہے اور کسی میں سچی ہنسی اور مسکراہٹ کی۔ کوئی شعر دنیا کی بے ثباتی کا تصور پیش کرتا ہے تو کوئی اخلاق و تہذیب کا نکتہ۔ کسی شعر میں زمانے کے اضطراب و انتشار کا ذکر ہوتا ہے تو کسی میں سیاسی حالات کا تغیر و تبدل۔ کسی شعر میں حیات و جذبات کی تفسیریں ہوتی ہیں تو کسی میں مناظرِ فطرت کی تصویریں۔ کوئی شعر تصوف کا حامل ہوتا ہے تو کوئی سیاست کا۔ کوئی اخلاقی ہوتا ہے تو کوئی فکروفلسفہ سے مزّین۔
غرض کہ پوری غزل مطالب و معانی اور خیال و موضوع کے اعتبار سے تنوع اور نگارنگی کی حامل ہوتا ہے۔ غالب کی غزل کے یہ اشعار دیکھئے۔


درد منت کش دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا برا نہ  ہوا
جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
اک تماشا ہوا گلا نہ ہوا


شمیم احمد اپنی کتاب “اصناف سخن اور شعری بیتٔیں” میں یہ مثال دیتے ہیں کہ آخر منتشر الخیال اشعار کو مربوط اور ایک ہی رشتے میں کون سی چیز منسلک رکھتی ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے اس چیز کو دھاگہ کہا ہے۔ غزل کا دھاگہ کیا ہے۔ اس کے بارے میں شمیم احمد لکھتے ہیں۔
” غزل کا ایک مخصوص مزاج ہوتا ہے، جو معنی و مفہوم کے فرق و اختلاف کے باوجود تمام اشعار میں اندرونی یا زیریں سطح پر موجود ہوتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح پھولوں کے ایک ہار میں کوئی پھول گلاب کا ہوتا ہے۔ کوئی موگرے کا، کوئی چنبیلی کا، کوئی گیندے کا اور وہ سب ایک دھاگے سے ایک دوسرے میں گتھے ہوئے ہوتے ہیں۔
اوپری سطح پر ہر پھول اپنا جدا رنگ اور جدا شان رکھتا ہے اور سب کے حسن سے مل کر ہار خوبصورت اور دیدہ زیب بنتا ہے لیکن وہ شے، جس نے ان سب رنگوں اور خوشبوؤں کو ایک دوسرے سے مربوط کر رکھا ہے، نظروں سے اوجھل ہے۔ نظر سے اوجھل ہونے کے باوجود اس کی بڑی طاقت اور اہمیت ہے۔ اس لئے کہ اگر یہ “دھاگہ” ٹوٹ جائے تو سارے پھول بکھر جائیں اور ہار کا وجود ہی ملیامیٹ ہو جائے۔
غزل میں یہ اندرونی یا زیریں دھاگہ غزل گو شاعر کا اپنا داخلی احساس و جذبہ ہے، جو خارج کے ہر مظہر کو اس کا اپنا تجربہ بنا دیتا ہے۔”

ایجاز و اختصار

غزل کی خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیت ایجاز و اختصار ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ دریا کو کوزے میں بند کرنا۔ اس کیلئے شاعر کا قادرالکلام ہونا بڑا ضروری ہے۔ کیونکہ ایک طویل مضمون کو کم سے کم الفاظ میں بیان کرنا ہوتا ہے۔ اس کے لیے اشعار کو تشبیہات، استعارات، علامات، اشاروں، کنایوں، صنائع بدائع اور ضرب الا مثال سے کام لینا پڑتا ہے۔

خلوص و صداقت

غزل ایک داخلی صنفِ سخن ہے۔ اس کے ذریعے مختلف قسم کے جذبات و خیالات یعنی وارداتِ قلبی اور ذاتی احساسات و کیفیات کو خلوص کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ اگر کلام میں خلوص اور صداقت نہیں تو اس میں معجزے کی کیفیت کے پیدا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

داخلیت و خارجیت کی آمیزش

میر تقی میراور فانی کا کلام ان کے درد بھرے دل کی کہانی ہے۔ داخلیت کے علاوہ اگر شاعر خارجیت کا بھی ذکر کرتا ہے تو اس میں اسے اپنے خون جگر کی آمیزش کرنی پڑتی ہے۔

رمز و ایمائیت

غزل کی خصوصیات میں سے ایک نمایاں خصوصیت رمزوایمائیت ہے۔ رمزوایمائیت دراصل غزل کی جان ہے۔ اس کے ذریعے بات میں وسعت و کشادگی آتی ہے۔ شاعر کی یہ انتہائی کوشش ہوتی ہے کہ ایک شعر کے چند الفاظ میں مفہوم و معانی کا ایک جہاں بھردے۔ رمزوایمائیت سے الفاظ میں وسعت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ شعر محض ایک واقعہ تک محدود نہیں رہتا نہیں رہتا بلکہ تمام واقعات کا حصار کر لیتا ہے۔
جس طرح شاعر چاندوچکور اور گل و بلبل کے حوالے سے عاشق و محبوب اور بادہ و ساغر اور دشنہ و خنجر کے حوالے سے مشاہدۂ حق کی گفتگو کرتا ہے۔ اسی طرح بہار و خزاں، شمع و پروانہ، برق و نشمین، صیاد و زنداں، لیلٰی و مجنون،دامق و عذرا، شیریں و فرہاد، نل و دمن، تیرد شمشیر اور زندگی و موت جیسے اشارے کنائے اور تشبیہات و استعارات اس کے مفہوم کو مزید تقویت دیتے ہیں۔

آہنگ

غزل کا ہر شعر موضوع وخیال اور مطالب و مفاہیم کے سبب الگ الگ اور بے ربط سا معلوم ہوتا ہے۔ مگر اپنی ہیٔت و بناوٹ کے اعتبار سے غزل کے تمام شعر ردیف و قافیہ کی وجہ سے مربوط ہوتے ہیں، جس سے وحدت تاثر کا پتہ چلتا ہے۔ اسی کیفیت کو آہنگ کہتے ہیں۔

جذبات و خیالات

جذبات و خیالات غزل کی خصوصیات میں سے ایک اہم خوبی ہے۔ غزل کے خیالات و مضامین کا انسانی جذبات و خیالات سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ دل سمندر سے بھی گہری چیز ہے اور یہ سو مرتبہ ٹوٹتا بکھرتا رہتا ہے۔ اس کی دنیا کبھی آباد ہو جاتی ہے اور کبھی اجڑ جاتی ہے۔ ایک شخص کبھی مظلوم ہوتا ہے اور کبھی ظالم۔ کبھی زہرو ہوتا ہے اور کبھی مقیم۔ کبھی شریف ہوتا ہے اور کبھی رندو مشرب، جوں جوں انسان پر یہ کیفیات طاری ہو جاتی ہیں، توں توں اس کے جذبات و تخیلات میں تبدیلی آتی جاتی ہے۔ یہ سب کچھ بشری تقاضوں کے عین مطابق ہوتا ہے۔

سوز و گداز

غزل کی ایک اور اہم خصوصیت درد و سوز اور سوزوگداز ہے۔ سوز و گداز کی بدولت غزل میں اثر آفرینی، شیرینی اور اثرانگیزی جیسی خوبیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ غزل چونکہ واردات قلبیہ اور اعلٰی درجے کے امور ذہنی کا مظہر ہوتی ہے۔
اس لیے ہجرو وصال، عشق و محبت، غمِ دوراں اور غمِ جاناں کو جب تک سوزوگداز کی ہلکی آنچ نہ ملے۔ اس وقت تک غزل نہ تو کسی کو اپنی طرف متوجہ کر سکتی ہے، اور نہ کسی کے دل پر اثر چھوڑ سکتی ہے، نہ کسی کے دل کو تڑپا سکتی ہے اور نہ ہی کسی محفل کو گرما سکتی ہے۔

سادہ زبان

غزل کیلئے زبان کی سلاست و سادگی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ علامہ شبلی کہتے ہیں۔ کہ غزل کی ایک خاص زبان ہوتی ہے۔ جس میں الفاظ کی ملائمت ولطافت ایک لازمی چیز ہے۔ اگر ہم غزل کو ایک دھان پان سی دوشیزہ کہتے ہیں، تو اس دوشیزہ کو پیرہن بھی نرم و نازک اور شستہ و ملائم پہنانا چاہئے۔
بھاری بھر کم اور گرانڈیل الفاظ کے حسن کو بدنما کردیں گے یعنی اس کاسبک،لطیف اور کومل جسم اس قسم کے بھاری اور بھدے الفاظ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ دوراز کار تشبیہات و استعارات، بلا ضرورت صنائع و بدائع اور بلند آہنگ الفاظ ایک اچھی بھلی غزل کو بے اثر کر دیں گے۔

موسیقیت

موسیقی روح کی غذا ہے اور یہ انسانی جذبات پر اثر کرنے کے لئے جادوئی خوبیاں رکھتی ہے۔ غزل کے اشعار میں وزن، بحر، ردیف، قافیہ کی تکرار اور الفاظ کا مدوجزر ایک خاص آہنگ پیدا کرتا ہے اور یہی آہنگ غزل کے اشعار کو مؤثر اور پرکار بنا دیتا ہے۔ اشعار میں جس قدر موسیقیت و نغمگی ہوگی۔ اس قدر اشعار دلوں میں رقت پیدا کریں گے۔

انداز بیان

غزل کا انسانی جذبات و کیفیات کا براہِ راست تعلق ہوتا ہے۔ جس طرح انسان پوری کائنات میں اشرف المخلوقات ہے۔ اسی طرح غزل بھی اصنافِ سخن میں اشرف و افضل ہے اور پوری کائنات پر حاوی ہے۔جس طرح غزل فطری جذبات کی عکاس ہوتی ہے۔ اس طرح اس کے اندازِبیان میں بھی فطری سادگی، بے ساختگی اور برجستگی ہونی چاہیے۔ علامہ شبلی نے اس خاطر غزل میں حسن بیان، خوبی ادا اور شستگی و لطافت پر زور دیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اردو ادب @2024©جملہ حقوق محفوظ ہیں

کاپی کرنے کی اجازت نہیں ہے