غم نہیں گو اے فلک رتبہ ہے مجھ کو خار کا |
آفتاب اک زرد پتا ہے مرے گل زار کا |
زلف کے حلقہ میں الجھا سبزہ گوش یار کا |
ہو گیا سنگ زمرد خال چشم مار کا |
ناخدا ہے موت جو دم ہے سو ہے باد مراد |
عزم ہے کشتیٔ تن کو بحر ہستی یار کا |
خانۂ زنجیر سے مثل صدا ڈرتا ہوں اب |
یاد آتا ہے کف پا میں کھٹکنا خار کا |
جوش گریہ نے کیا ہے ناتواں اتنا مجھے |
ٹوٹنا ممکن نہیں ہے آنسوؤں کے تار کا |
کھا گئی آخر مجھے چشم سیاہ سرمگیں |
زرق قسمت نے کیا ہے زنگی آدم خوار کا |
سعئ لا حاصل مداوائے مریض عشق ہے |
تھامنا ممکن نہیں گرتی ہوئی دیوار کا |
ہاتھ قاتل کا گریباں تک پہنچ سکتا نہیں |
اور فرط شوق ہے یاں زخم دامن دار کا |
پھول جو ہے اپنے گلشن کا سپر کا پھول ہے |
ہر شجر اس باغ میں لاتا ہے پھل تلوار کا |
خط روئے یار سے ایذا اٹھائی ہے زبس |
سبزہ سے ہوتا ہے صدمہ میرے دل کو خار کا |
گرچہ پیش طاق ابروئے صنم گیسو نہیں |
کعبہ پر نرغہ ہوا ہے لشکر کفار کا |
اے صنم تیری کرنجی آنکھ سے ثابت ہوا |
رنگ اڑ جاتا ہے روئے مردم بیمار کا |
یاد میں تیری رقیب رو سیہ جاگا تو کیا |
مرتبہ عالی نہ ہو خفاش شب بیدار کا |
اس پری رو کے جو کوچہ کا گزرتا ہے خیال |
بن کے جن سایہ لپٹا ہے مجھے دیوار کا |
اٹھ کے دیوار لحد سے مردے ٹکراتے ہیں سر |
اک قیامت ہے صنم عالم تری رفتار کا |
خم ندامت سے کیا محراب میں کعبہ کے سر |
گردن زاہد سے بوجھ اٹھا نہ جب زنار کا |
زندگی میں بے ادب ہونے نہ دے تو رعب حسن |
خاک ہے میری پس از مرگ اور دامن یار کا |
اے صنم عاشق سے روپوشی نہیں لازم تجھے |
پردہ موسیٰ سے نہیں اللہ کو دیدار کا |
بوئے گل آتشؔ کہیں ہوتی ہے محسوس نظر |
افترا ہے روز محشر یار کے دیدار کا |
2024-10-03