ڈرامہ یونانی زبان کے لفظ Drao سے نکلا ہے۔ جس کے معنی تمثیل، ناٹک یا سوانگ کے ہیں۔ ان سب کے معنی کچھ کر کے دکھانا ہے انسان فطری طور پر ڈرامے میں دلچسپی لیتا ہے۔ ڈرامہ کی مختلف اقسام ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:
المیہ
المیہ ڈرامہ وہ ہوتا ہے جس کا انجام نہایت الم ناک ہوتا ہے بعض اوقات ڈرامے کا مجموعی تاثر بھی المیہ ہوتا ہے جس سے تماشائیوں پر دردمندی اور رحم کے جذبات ابھرتے ہیں۔
طربیہ
جس ڈرامے کی کہانی مزاحیہ انداز لیے ہوتی ہے اسے طربیہ ڈرامہ کہا جاتا ہے ۔ ایسے ڈراموں میں ہلکے پلکے انداز میں معاشرتی ناہموار یوں اور انسانی رویوں کی عکاسی کی جاتی ہے ۔ طربیہ ڈرامے لوگ دلچسپی اور شوق سے دیکھتے ہیں۔
میلو ڈرامہ
میلویونانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی “گیت” کے ہیں چنانچہ میلوڈرامہ گیتوں سے آراستہ ہوتا ہے۔
سوانگ
سوانگ ایک مختصر مذاقیہ تمثیل کا نام ہے جس میں ادنی مذاق اور مبالغہ آمیز بذلہ سنجی اور ظرافت کا اظہار ہوتا ہے اس میں کردار اور پلاٹ کی وضاحت نہیں ہوتی تمسخر انگیز واقعات کثرت سے ملتے ہیں۔
مخلوط ڈرامہ
بعض ڈرامے ایسے ہوتے ہیں جن میں ڈراموں کی تمام اقسام کو مشتر کہ انداز میں سمودیا جاتا ہے ایسے ڈرامے میں ہر نوعیت کے تاثرات شامل ہوتے ہیں اسے مخلوط ڈرامہ کہتے ہیں۔
ون ایکٹ ڈرامہ
یہ خالصتا ًتکنیکی انداز کاڈرامہ ہوتا ہے ایک ایکٹ ہی میں ڈرامہ پایا تکمیل کو پہنچتا ہے۔
نشری ڈرامہ
ریڈیو سے نشر ہونے والے ڈرامے کو نشری ڈرامہ کہتے ہیں اس میں کہانی کانوں سے سنی جاتی ہے اس ڈرامےمیں انہیں واقعات کو لایا جاتا ہے جو آواز کے ذریعے پیش کیے جاسکتے ہیں۔
فینٹسی
فینٹسی ایسی تحریر ہوتی ہے جو تخیل کے زور پر لکھی جاتی ہے جس میں مصنف اپنے تخیل کے زور پر ماضی اور مستقبل کو یکجا کر کے حال میں بیان کرتا ہے۔ جیسے محمد حسین آزاد نے اپنے مضمون ” شہرت عام بقائے دوام‘‘ میں ماضی اور مستقبل کو حال میں بیان کر دیا ہے، اسی طرح مرزا فرحت اللہ بیگ نے ’’دلی کا ایک یادگار مشاعرہ‘‘ میں ماضی کو حال میں بیان کر دیا ہے۔
اردو شاعری میں فینٹسی کا با کمال نمونہ شاعر مشرق کی شہرہ آفاق تصنیف ” جاوید نامہ “ہے جس میں دو خواب کی کیفیت میں اپنے پیر رومی کی معیت میں آسمانوں کی سیر کرتے ہیں اور تاریخ کی بڑی بڑی ہستیوں سے ابلیس سمیت دلچسپ مکالمہ کرتے ہیں ۔ اس کتاب کو اقبال کی تصانیف میں نہایت بلند مرتبہ حاصل ہے۔