| کوئی عشق میں مجھ سے افزوں نہ نکلا |
| کبھی سامنے ہو کے مجنوں نہ نکلا |
| بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا |
| جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا |
| بجا کہتے آئے ہیں ہیچ اس کو شاعر |
| کمر کا کوئی ہم سے مضموں نہ نکلا |
| ہوا کون سا روز روشن نہ کالا |
| کب افسانۂ زلف شبگوں نہ نکلا |
| پہونچتا اسے مصرع تازہ و تر |
| قد یار سا سرو موزوں نہ نکلا |
| رہا سال ہا سال جنگل میں آتشؔ |
| مرے سامنے بید مجنوں نہ نکلا |
2024-10-08