آئنہ سینۂ صاحب نظراں ہے کہ جو تھا |
چہرۂ شاہد مقصود عیاں ہے کہ جو تھا |
عشق گل میں وہی بلبل کا فغاں ہے کہ جو تھا |
پرتو مہ سے وہی حال کتاں ہے کہ جو تھا |
عالم حسن خدا داد بتاں ہے کہ جو تھا |
ناز و انداز بلائے دل و جاں ہے کہ جو تھا |
راہ میں تیری شب و روز بسر کرتا ہوں |
وہی میل اور وہی سنگ نشاں ہے کہ جو تھا |
روز کرتے ہیں شب ہجر کو بیداری میں |
اپنی آنکھوں میں سبک خواب گراں ہے کہ جو تھا |
ایک عالم میں ہو ہر چند مسیحا مشہور |
نام بیمار سے تم کو خفقاں ہے کہ جو تھا |
دولت عشق کا گنجینہ وہی سینہ ہے |
داغ دل زخم جگر مہر و نشاں ہے کہ جو تھا |
ناز و انداز و ادا سے تمہیں شرم آنے لگی |
عارضی حسن کا عالم وہ کہاں ہے کہ جو تھا |
جاں کی تسکیں کے لئے حالت دل کہتے ہیں |
بے یقینی کا تری ہم کو گماں ہے کہ جو تھا |
اثر منزل مقصود نہیں دنیا میں |
راہ میں قافلۂ ریگ رواں ہے کہ جو تھا |
دہن اس روئے کتابی میں ہے پر نا پیدا |
اسم اعظم وہی قرآں میں نہاں ہے کہ جو تھا |
کعبۂ مد نظر قبلہ نما ہے تا حال |
کوئے جاناں کی طرف دل نگراں ہے کہ جو تھا |
کوہ و صحرا و گلستاں میں پھرا کرتا ہے |
متلاشی وہ ترا آب رواں ہے کہ جو تھا |
سوزش دل سے تسلسل ہے وہی آہوں کا |
عود کے جلنے سے مجمر میں دھواں ہے کہ جو تھا |
رات کٹ جاتی ہے باتیں وہی سنتے سنتے |
شمع محفل صنم چرب زباں ہے کہ جو تھا |
پائے خم مستوں کے ہو حق کا جو عالم ہے سو ہے |
سر منبر وہی واعظ کا بیاں ہے کہ جو تھا |
کون سے دن نئی قبریں نہیں اس میں بنتیں |
یہ خرابہ وہی عبرت کا مکاں ہے کہ جو تھا |
بے خبر شوق سے میرے نہیں وہ نور نگاہ |
قاصد اشک شب و روز وہاں ہے کہ جو تھا |
لیلۃ القدر کنایہ نہ شب وصل سے ہو |
اس کا افسانہ میان رمضاں ہے کہ جو تھا |
دین و دنیا کا طلب گار ہنوز آتشؔ ہے |
یہ گدا سائل نقد دو جہاں ہے کہ جو تھا |
2024-10-08