اے صنم جس نے تجھے چاند سی صورت دی ہے |
اسی اللہ نے مجھ کو بھی محبت دی ہے |
تیغ بے آب ہے نے بازوئے قاتل کمزور |
کچھ گراں جانی ہے کچھ موت نے فرصت دی ہے |
اس قدر کس کے لیے یہ جنگ و جدل اے گردوں |
نہ نشاں مجھ کو دیا ہے نہ تو نوبت دی ہے |
سانپ کے کاٹے کی لہریں ہیں شب و روز آتیں |
کاکل یار کے سودے نے اذیت دی ہے |
آئی اکسیر غنی دل نہیں رکھتی ایسا |
خاکساری نہیں دی ہے مجھے دولت دی ہے |
شمع کا اپنے فتیلہ نہیں کس رات جلا |
عمل حب کی بہت ہم نے بھی دعوت دی ہے |
جسم کو زیر زمیں بھی وہی پہونچا دے گا |
روح کو جس نے فلک سیر کی طاقت دی ہے |
فرقت یار میں رو رو کے بسر کرتا ہوں |
زندگانی مجھے کیا دی ہے مصیبت دی ہے |
یاد محبوب فراموش نہ ہووے اے دل |
حسن نیت نے مجھے عشق سے نعمت دی ہے |
گوش پیدا کیے سننے کو ترا ذکر جمال |
دیکھنے کو ترے، آنکھوں میں بصارت دی ہے |
لطف دل بستگیٔ عاشق شیدا کو نہ پوچھ |
دو جہاں سے اس اسیری نے فراغت دی ہے |
کمر یار کے مضمون کو باندھو آتشؔ |
زلف خوباں سی رسا تم کو طبیعت دی ہے |
2024-08-24