بشیر بدر کو ‘بدر’ کا خطاب کب اور کہاں ملا؟

تحریر : سید محمد بشیر

بشیر بدر کی ماں عالیہ بیگم کے متعلق کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ ایک بار ایک عالیہ بیگم اپنے چھ مہینے کے بچے کو لیکر لکھنؤ سےفیض آباد ریل گاڑی کے ذریعے جارہی تھیں، اسی ٹرین میں ایک ولی کامل بھی سفر کررہے تھے، ولی نے خاتون سے پوچھا بیٹی گود میں کیا ہے؟

عالیہ بیگم نے جواب دیا خدا کی امانت۔

ولی کامل نے کہا کہ بیٹی اسے مجھے دیدو میں اسے اپنا بیٹا بناکر جان سے بھی زیادہ پیار دوں گا، یہ سن کر عالیہ بیگم نے کہا کہ کیا کوئی اپنے لخت جگر کو کسی کو دے سکتا؟

in article image

بشیر بدر کی شریک حیات

ولی کامل نے کہا کہ اگر امانتدار اپنی امانت واپس لے لے تو تم کیا کروگی؟

اس سوال کے بعد عالیہ بیگم نے کہا کہ شکرانے کی نماز ادا کروں گی اور اس کا بدل خدا سے طلب کروں گی۔

اس کے ایک ہفتے کے بعد اس بچے کو نمونیا نام کی ایک بیماری ہوگئی، اور وہ خدا کو پیارا ہوگیا۔

in article image

بشیر بدر کی ابتدائی تعلیم کانپور میں ہی ہوئی، بچپن سے ہی وہ باادب اور نرم مزاج تھے، اس لیے تمام گھر والے انہیں بے انتہا پیار کرتے تھے

عالیہ بیگم کے والد جب بچے کو دفن کرکے واپس آئے تو دیکھا کہ خاتون سجدے میں ہے، نماز سے فراغت کے بعد عالیہ بیگم نے اپنے والد کو ریل گاڑی میں ملنے والے اس ولی کامل کی تمام باتیں بتائیں۔

اب عالیہ بیگم روزانہ دعائیں مانگنے لگیں، آخرکار اس عالیہ بیگم کی دعا قبول ہوئی، اور پھر قاضی شاہ محمد نظیر کے گھر میں ایک پیارا سا بچہ پیدا ہوا، جس کا نام سید محمد بشیر رکھا گیا۔

خیال رہے کہ سید محمد بشیر کی پیدائش شہر کانپور میں 15 فروری سنہ 1935 کو ہوئی۔

in article image

سید محمد بشیر آگے چل کر ڈاکر بشیر بدر کہلائے، جن کے ذکر کے بغیر غزل کی تاریخ نامکمل ہے

واضح رہے کہ یہی سید محمد بشیر آگے چل کر ڈاکر بشیر بدر کہلائے، جن کے ذکر کے بغیر غزل کی تاریخ نامکمل ہے۔

یاد رہے کہ شروع میں جس واقعے کا ذکر کیا گیا وہ بشیر بدر کے بڑے بھائی کا ہے، حالانکہ ان کے ایک اور بھائی کا انتقال نمونیاں سے ہی ہوا تھا، اس لیے ان کے والد بشیر بدر کی طویل عمر کی دعا کرانے کے لیے وہ فتحپور کے ایک بزرگ کے پاس گئے اور ان کے لیے دعا کرائی۔

بشیر بدر کی ابتدائی تعلیم کانپور میں ہی ہوئی، بچپن سے ہی وہ باادب اور نرم مزاج تھے، اس لیے تمام گھر والے انہیں بے انتہا پیار کرتے تھے۔

in article image

بشیر بدر کے 85ویں یوم پیدائش پر ای ٹی وی بھارت کی جانب نیک خواہشات

بشیر بدر نے سنہ 1946 یعنی محض 11 برس کی عمر میں ہی اپنی پہلی غزل کہی، جس کا پہلا شعر تھا،

ہوا چل رہی ہے اڑا جارہا ہوں

تیرے عشق میں میں مرا جارہا ہوں

اس شعر کو سننے کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ وہ علامہ اقبال کی جھلک نظر آتی ہے، جس میں اقبال کہتے ہیں کہ

تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں

میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

in article image

بشیر بدر کا کلام مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا جاچکا ہے، ان کے مختلف شعر ہماری زندگی اور سماج کا حصہ بن چکے ہیں

جب بشیر بدر کے والد کا تبادلہ اٹاوہ ہوا تو وہ اٹاوہ چلے گئے، اور وہیں پر انہوں نے اپنی پہلی غزل پڑھی، غزل بہت پسند کی گئی اور انہیں ‘بدر’ کے خطاب سے سرفراز کیا گیا، اس طرح سید محمد بشیر سے وہ اب بشیر بدر ہوگئے۔

شاعری اور تعلیم کا سلسلہ چلتا رہا اسی دوران والد اچانک سخت بیمار ہوگئے اور سنہ 1959 میں ان انتقال ہوگیا۔

اس کے بعد بشیر بدر نے اپنا تعلیمی سفر ترک کرکے بھائیوں کی ذمہ داری سنبھالی، اور پھر کچھ برسوں بعد سنہ 1966 میں انہوں نے بی اے میں داخلہ لیا، اور بی اے کرنے کے بعد ایم اے کرنے لگے، ان کی شاعری کو اس دور میں اتنی اہمیت حاصل تھی کہ وہ جس یونیورسٹی میں پڑھتے تھے اسی کے سیلیبس میں ان کی غزل شامل تھی، اور ان کے کلام کو سیلیبس کے مضمون ‘جدید تر’ کے نام سے پڑھایا جاتا تھا، اسی دوران سنہ 1974 میں انہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری ایوارڈ ہوئی۔

in article image

دعاگو ہیں کہ وہ جلد از جلد صحت یاب ہوکر ہماری محفلوں کو رونق اور عزت بخشیں

بشیر بدر نے آل احمد سرور کی نگرانی میں ‘آزادی کے بعد اردو غزل کا تکنیکی مطالعہ’ کے موضوع پر اپنا تحقیقی مقالہ لکھا، اس کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بطور لیکچرر اپنی خدمات دینے لگے، پھر میرٹھ چلے گئے، جہاں وہ ریڈر اور شعبہ اردو کے سربراہ بھی ہوئے۔

بشیر بدر کے اردو شعر شاعری کا نیا باب ہیں، انہوں نے اردو غزل کو رومانس کا نیا انداز دیا، اس شعر سے ہی اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جس میں وہ کہتے ہیں

وہ زعفرانی پُلوور اسی کا حصہ ہے

کوئی جو دوسرا پہنے تو دوسرا ہی لگے

بشیر بدر کے نئے لفظ اور افتاد ان کی غزل کی شناخت بن گئے، جیسے وہ کہتے ہیں،

ریل کی پٹری پر میری شہرت رکھ دی

‘بس’ کے پہیوں سے روزی روٹی باندھی

کبھی سات رنگوں کا پھول ہوں، کبھی دھوپ ہوں کبھی دھول ہوں

میں تمام کپڑے بدل چکا تیرے موسموں کی برسات میں

in article image

بشیر بدر کی شریک حیات

وہ غزل میں نئے تجربات بھی خوب کیا کرتے ہیں، مثلاً

سرمئی ہڈیوں، خاکی اشجار نے

لوٹنے والوں کا خیر مقدم کیا

ہم نے تو یہ سنا تھا کہ ان لوگوں پر

چاند تارے بہت پھول برسائیں گے

ان کے شعروں جذبات اور احساسات کا رنگ نظر آتا ہے مثلاً

بلڈنگیں لوگ نہیں ہیں جو کبھی بھاگ سکیں

روز انسان کو سیلاب بڑھا جاتا ہے

معروف ادیب اور شاعر ندا فاضلی نے لکھا کہ بشیر بدر کی آواز دور سے پہچانی جاتی ہے، یہ کسی شاعر کے لیے بہت بڑی بات ہوتی ہے، انہوں مزید لکھا کہ ویسے تو بشیر بدر کے کئی شعر بہت مقبول ہیں، لیکن ان یہ

اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو

نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہوجائے

ندا فاضلی نے لکھا کہ اس شعر کی شہرت بشیر بدر سے کہیں زیادہ ہے، یہ شعر ہر جگہ نظر آتا ہے۔

ندا فاضلی نے 1975 کا اپنا ایک قصہ بیان کرتے ہوئے لکھا کہ ‘میں نے اپنے ایک استاد سے جب ان کا آٹوگراف مانگا تو انہوں نے یہی شعر مجھے لکھ کردیا’ مزے کی بات یہ ہے کہ اس شعر کے خالق کو نہ میں جانتا تھا اور نہ ہی میرے استاد، جبکہ یہ شعر بشیر بدر کا ہے؟

خیال رہے کہ ڈاکٹر راحت بدر نے اپنی تحقیق ‘جدید اردو غزل’ میں لکھا ہے کہ بشیر بدر سے قبل گاؤں لفظ اردو شاعری میں استعمال نہیں ہوا کرتا تھا، لیکن بشیر بدر نے اس کا استعمال بخوبی کیا ہے، جیسے

دھوپ میں کھیت گنگنانے لگے

جب کو ئی گاؤں کی جیالی ہنسی

انہوں نے کہا کہ بار ہا ان کی غزل میں ایسے الفاظ آئے ہیں کہ اٹپتے نہیں لگے، مثلاً

سنسان راستوں سے سواری نہ آئے گی

اب دھول سے اٹی ہوئی لاری نہ آئے گی

in article image

بشیر بدر ‘ڈیموشیا’ کے مرض میں مبتلا ہوکر بستر پر ہوں، لیکن وقت کے ساتھ ان کی اہمیت اور افادیت میں مزید اضافہ ہوگا

بشیر بدر کی شاعری کا سفر نصف صدی کا سفر ہے، جسے پڑھ کر ہم ان کی غیرحقیقی، تخیلات اور رنگ برنگی دنیا کا احساس ہوتا ہے، بھلے ہی آج بشیر بدر ‘ڈیموشیا’ کے مرض میں مبتلا ہوکر بستر پر ہوں، لیکن وقت کے ساتھ ان کی اہمیت اور افادیت میں مزید اضافہ ہوگا۔

واضح رہے کہ ان کا کلام مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا جاچکا ہے، ان کے مختلف شعر ہماری زندگی اور سماج کا حصہ بن چکے ہیں۔

اخیر میں ہم دعاگو ہیں کہ وہ جلد از جلد صحت یاب ہوکر ہماری محفلوں کو رونق اور عزت بخشیں، بشیر بدر کے 85ویں یوم پیدائش پر ای ٹی وی بھارت کی جانب نیک خواہشات۔

بدر واستی کا مضمون سے موخوذ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے