جون ایلیا: ایک عہد ساز شاعر اور مفکر

اردو ادب کی دنیا میں جون ایلیا کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ ایک ایسے شاعر، فلسفی اور دانشور تھے جنہوں نے اپنی شاعری اور طرز زندگی سے مروجہ روایتوں کو چیلنج کیا اور اردو غزل کو ایک نئی جہت دی۔ ان کی شاعری نہ صرف گہرے فکری مضامین رکھتی ہے بلکہ وہ ایک ایسی گہری ذاتی واردات کا بھی اظہار ہے جو قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔

ابتدائی زندگی اور علمی پس منظر:

سید سبطِ اصغر نقوی، جو بعد میں جون ایلیا کے نام سے مشہور ہوئے، 14 دسمبر 1931 کو امروہہ، اتر پردیش، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک ایسے علمی اور ادبی گھرانے سے تھا جہاں علم و ادب کی محفلیں روزانہ کی بنیاد پر منعقد ہوتی تھیں۔ ان کے والد، سید شفیق حسن ایلیا، ایک نامور عالم اور صوفی تھے۔ بھائیوں میں رئیس امروہوی اور سید محمد تقی بھی اردو ادب کی بڑی شخصیات تھیں۔ اس علمی ماحول نے جون ایلیا کی شخصیت کی آبیاری میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے ابتدائی عمر میں ہی اردو، عربی، فارسی، انگریزی اور یہاں تک کہ عبرانی زبان پر بھی عبور حاصل کر لیا تھا۔ ان کی وسیع المطالعہ شخصیت نے انہیں قدیم فلسفہ، تصوف اور مختلف الہامی کتب کے مطالعے کا موقع فراہم کیا۔

ہجرت اور کراچی میں قیام:

1957 میں، جون ایلیا نے ہجرت کی اور کراچی، پاکستان میں مستقل سکونت اختیار کی۔ یہ ہجرت ان کی زندگی کا ایک اہم موڑ ثابت ہوئی۔ اگرچہ وہ اپنے وطن سے بہت لگاؤ رکھتے تھے، لیکن پاکستان میں انہیں ایک ایسا ادبی ماحول ملا جہاں ان کی صلاحیتوں کو مزید پروان چڑھنے کا موقع ملا۔ جلد ہی وہ کراچی کے ادبی حلقوں کا ایک اہم حصہ بن گئے اور اپنی منفرد آواز اور اسلوب کے ساتھ ادبی منظر نامے پر چھا گئے۔

شاعری اور فکری رجحانات:

جون ایلیا کی شاعری وجودیت، محبت، محرومی، تنہائی اور سماجی ناانصافی جیسے گہرے موضوعات کا احاطہ کرتی ہے۔ وہ انسانی وجود کی بے معنویت، قسمت اور معاشرتی اقدار پر گہرے سوالات اٹھاتے نظر آتے ہیں۔ ان کی شاعری میں ایک گہرا کرب، اضطراب اور بغاوت کا عنصر پایا جاتا ہے۔ وہ خود کو ایک "نیہلسٹ” اور "انارکسٹ” کہتے تھے، اور ان کے خیالات ان کی شاعری میں جھلکتے ہیں۔

ان کا پہلا شعری مجموعہ "شاید” 1990 میں شائع ہوا اور اسے اردو ادب میں ایک سنگ میل قرار دیا گیا۔ اس کے بعد "یعنی”، "گمان”، "لیکن”، "گویا” اور "فرنود” جیسے مجموعے شائع ہوئے۔ جون ایلیا کی شاعری کی سب سے بڑی خوبی ان کا سادہ لیکن گہرا انداز بیان ہے۔ وہ مشکل سے مشکل بات کو بھی ایسے سادہ الفاظ میں بیان کر جاتے ہیں کہ قاری کو گہرائی میں اترنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ان کی غزلوں میں کلاسیکی روایت اور جدیدیت کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔

عوامی مشاعرے اور انداز:

جون ایلیا صرف ایک شاعر ہی نہیں تھے، بلکہ وہ ایک لاجواب پرفارمر بھی تھے۔ ان کے مشاعرے انتہائی مقبول ہوتے تھے جہاں وہ اپنی شاعری کو ایک خاص انداز میں پیش کرتے تھے۔ ان کا ڈرامائی اندازِ ترسیل، وقفے اور آواز کا اتار چڑھاؤ سامعین کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا تھا۔ ان کی خود کلامی، ذاتی تجربات کا اظہار اور حاضر جوابی ان کے مشاعروں کی جان ہوتی تھی۔

ترجمہ نگاری اور ادبی خدمات:

شاعری کے علاوہ جون ایلیا نے ترجمہ نگاری میں بھی نمایاں خدمات انجام دیں۔ وہ خاص طور پر پرانے صوفی، معتزلی اور اسماعیلی رسائل کے ترجمے پر عبور رکھتے تھے اور انہوں نے کئی اہم فلسفیانہ اور مذہبی متون کا اردو میں ترجمہ کیا۔ وہ ایک ماہر لسانیات تھے اور ان کی یہ صلاحیت ان کے ادبی کاموں میں بھی جھلکتی ہے۔

اثرات اور میراث:

جون ایلیا کا اثر آج بھی اردو ادب میں محسوس کیا جاتا ہے۔ ان کی شاعری نے خاص طور پر نوجوان نسل کو گہرا متاثر کیا ہے اور سوشل میڈیا پر ان کے اشعار اور قول بہت مقبول ہیں۔ وہ نہ صرف ایک شاعر تھے بلکہ ایک رجحان ساز شخصیت بھی تھے۔ ان کی شاعری انسانی نفسیات، وجود کے اسرار اور معاشرتی ناہمواریوں کی گہری تصویر کشی کرتی ہے۔

8 نومبر 2002 کو جون ایلیا کراچی میں وفات پا گئے۔ ان کی موت نے اردو شاعری کے ایک عہد کا خاتمہ کر دیا۔ تاہم، ان کی میراث آج بھی زندہ ہے اور ان کا کلام اردو ادب کی تاریخ میں ہمیشہ یادگار رہے گا۔ وہ ایک ایسے شاعر تھے جنہوں نے زبان، خیالات اور جذبات کو نئی وسعتیں بخشیں اور قارئین کو زندگی کے گہرے معنوں پر غور کرنے کی دعوت دی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے