حسن پری اک جلوۂ مستانہ ہے اس کا |
ہشیار وہی ہے کہ جو دیوانہ ہے اس کا |
گل آتے ہیں ہستی میں عدم سے ہمہ تن گوش |
بلبل کا یہ نالہ نہیں افسانہ ہے اس کا |
گریاں ہے اگر شمع تو سر دھنتا ہے شعلہ |
معلوم ہوا سوختہ پروانہ ہے اس کا |
وہ شوخ نہاں گنج کی مانند ہے اس میں |
معمورۂ عالم جو ہے ویرانہ ہے اس کا |
جو چشم کہ حیراں ہوئی آئینہ ہے اس کی |
جو سینہ کہ صد چاک ہوا شانہ ہے اس کا |
دل قصر شہنشہ ہے وہ شوخ اس میں شہنشاہ |
عرصہ یہ دو عالم کا جلو خانہ ہے اس کا |
وہ یاد ہے اس کی کہ بھلا دے دو جہاں کو |
حالت کو کرے غیر وہ یارانہ ہے اس کا |
یوسف نہیں جو ہاتھ لگے چند درم سے |
قیمت جو دو عالم کی ہے بیعانہ ہے اس کا |
آوارگی نکہت گل ہے یہ اشارہ |
جامے سے وہ باہر ہے جو دیوانہ ہے اس کا |
یہ حال ہوا اس کے فقیروں سے ہویدا |
آلودۂ دنیا جو ہے بیگانہ ہے اس کا |
شکرانۂ ساقی ازل کرتا ہے آتشؔ |
لبریز مئے شوق سے پیمانہ ہے اس کا |
2024-10-09