رفتگاں کا بھی خیال اے اہل عالم کیجیے |
عالم ارواح سے صحبت کوئی دم کیجیے |
حالت غم کو نہ بھولا چاہئے شادی میں بھی |
خندۂ گل دیکھ کر یاد اشک شبنم کیجیے |
عیب الفت روز اول سے مری طینت میں ہے |
داغ لالہ کے لیے کیا فکر مرہم کیجیے |
اپنی راحت کے لیے کس کو گوارا ہے یہ رنج |
گھر بنا کر گردن محراب کو خم کیجیے |
عشق کہتا ہے مجھے رام اس بت وحشی کو کر |
حسن کی غیرت اسے سمجھاتی ہے رم کیجیے |
رات صحبت گل سے دن کو ہم بغل خورشید سے |
رشک اگر کیجے تو رشک بخت شبنم کیجیے |
دیدہ و دل کو دکھایا چاہئے دیدار یار |
حسن کے عالم سے آئینوں کو محرم کیجیے |
شکل گل ہنس ہنس کے روز وصل کاٹے ہیں بہت |
ہجر کی شب صبح رو کر مثل شبنم کیجیے |
تھی سزا اپنی جو شادی مرگ قسمت نے کیا |
ہجر میں کس نے کہا تھا وصل کا غم کیجیے |
آپ کی نازک کمر پر بوجھ پڑتا ہے بہت |
بڑھ چلے ہیں حد سے گیسو کچھ انہیں کم کیجیے |
اٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں |
روئیے کس کے لیے کس کس کا ماتم کیجیے |
روز مردم شب کیے دیتا ہے سرمہ پوچھیے |
خون ہوتے ہیں بہت شوق حنا کم کیجیے |
آئنے کو روبرو آنے نہ دیجے یار کے |
شانے سے آتشؔ مزاج زلف برہم کیجیے |
2024-10-08