| نا فہمی اپنی پردہ ہے دیدار کے لیے |
| ورنہ کوئی نقاب نہیں یار کے لیے |
| نور تجلی ہے ترے رخسار کے لیے |
| آنکھیں مری کلیم ہیں دیدار کے لیے |
| فدیے بہت اس ابروئے خم دار کے لیے |
| چو رنگ کی کمی نہیں تلوار کے لیے |
| قول اپنا ہے یہ سبحہ و زنار کے لیے |
| دو پھندے ہیں یہ کافر و دیں دار کے لیے |
| لطف چمن ہے بلبل گل زار کے لیے |
| کیفیت شراب ہے مے خوار کے لیے |
| سیری نہ ہوگی تشنۂ دیدار کے لیے |
| پانی نہیں چہ ذقن یار کے لیے |
| اتنی ہی ہے نمود مری یار کے لیے |
| شہرہ ہے جس قدر مرے اشعار کے لیے |
| دشت عدم سے آتے ہیں باغ جہاں میں ہم |
| بے داغ لالہ و گل بے خار کے لیے |
| شمشاد اپنے طرے کو بیچے تو لیجئے |
| اس لالہ رو کی لپٹتی دستار کے لیے |
| دو آنکھیں چہرے پر نہیں تیرے فقیر کے |
| دو ٹھیکرے ہیں بھیک کے دیدار کے لیے |
| سرمہ لگایا کیجیے آنکھوں میں مہرباں |
| اکسیر یہ سفوف ہے بیمار کے لیے |
| حلقے میں زلف یار کی موتی پروئیے |
| دنداں ضرور ہیں دہن مار کے لیے |
| گفت و شنید میں ہوں بسر دن بہار کے |
| گل کے لیے ہے گوش زباں خار کے لیے |
| بے یار سر پٹکنے سے ہلتا ہے گھر مرا |
| رہتا ہے زلزلہ در و دیوار کے لیے |
| بلبل ہی کو بہار کے جانے کا غم نہیں |
| ہر برگ ہاتھ ملتا ہے گل زار کے لیے |
| اے شاہ حسن زلف و رخ و گوش چشم و لب |
| کیا کیا علاقے ہیں تری سرکار کے لیے |
| چال ابر کی چلا جو گلستاں میں جھوم کر |
| طاؤس نے قدم ترے رہوار کے لیے |
| آیا جو دیکھنے ترے حسن و جمال کو |
| پکڑا گیا وہ عشق کی بیگار کے لیے |
| حاجت نہیں بناؤ کی اے نازنیں تجھے |
| زیور ہے سادگی ترے رخسار کے لیے |
| بیمار تندرست ہو دیکھے جو روئے یار |
| کیا چاشنی ہے شربت دیدار کے لیے |
| اس بادشاہ حسن کی منزل میں چاہئے |
| بال ہما کی پر چھتی دیوار کے لیے |
| سودائے زلف یار میں کافر ہوا ہوں میں |
| سنبل کے تار چاہئیں زنار کے لیے |
| زنجیر و طوق جو کہ ہے بازار دہر میں |
| سودا ہے اس پری کے خریدار کے لیے |
| چونا بنیں گے بعد فنا اپنے استخواں |
| دولت سرائے یار کی دیوار کے لیے |
| معشوق کی زباں سے ہے دشنام دل پذیر |
| شیرینی زہر ہے تری گفتار کے لیے |
| جاں سے عزیز تر ہے مرے دل کو داغ عشق |
| مہتاب لحد کی شب تار کے لیے |
| وہ مست خواب چشم ہے کوئی بلائے بد |
| کیا مرتبہ ہے فتنۂ بیدار کے لیے |
| خلوت سے انجمن کا کہاں یار کو دماغ |
| وہ جنس بے بہا نہیں بازار کے لیے |
| پہنا ہے جب سے تو نے شب ماہ میں اسے |
| کیا کیا شگوفے پھولتے ہیں ہار کے لیے |
| چھکڑا ہوئے ہیں سوچ کے راہ وفا میں پاؤں |
| پہیے لگائیے انہیں رفتار کے لیے |
| جو مشتری ہے بندہ ہے اس خوش جمال کا |
| یوسف بنے غلام خریدار کے لیے |
| سونے کے پتے ہوویں ہر اک گل کے کان میں |
| مقدور ہو جو بلبل گل زار کے لیے |
| گل ہائے زخم سے ہوں شہادت طلب نہال |
| توفیق خیر ہو تری تلوار کے لیے |
| اندھیر ہے جو دم کی نہ اس کے ہو روشنی |
| یوسف مرا چراغ ہے بازار کے لیے |
| احساں جو ابتدا سے ہے آتش وہی ہے آج |
| کچھ انتہا نہیں کرم یار کے لیے |
2024-10-04