| وحشی تھے بوئے گل کی طرح اس جہاں میں ہم |
| نکلے تو پھر کے آئے نہ اپنے مکاں میں ہم |
| ساکن ہیں جوش اشک سے آب رواں میں ہم |
| رہتے ہیں مثل مردم آبی جہاں میں ہم |
| شیدائے روئے گل نہ تو شیدائے قد سرو |
| صیاد کے شکار ہیں اس بوستاں میں ہم |
| نکلی لبوں سے آہ کہ گردوں نشانہ تھا |
| گویا کہ تیر جوڑے ہوئے تھے کماں میں ہم |
| آلودۂ گناہ ہے اپنا ریاض بھی |
| شب کاٹتے ہیں جاگ کے مغ کی دکاں میں ہم |
| ہمت پس از فنا سبب ذکر خیر ہے |
| مردوں کا نام سنتے ہیں ہر داستاں میں ہم |
| ساقی ہے یار ماہ لقا ہے شراب ہے |
| اب بادشاہ وقت ہیں اپنے مکاں میں ہم |
| نیرنگ روزگار سے ایمن ہیں شکل سرو |
| رکھتے ہیں ایک حال بہار و خزاں میں ہم |
| دنیا و آخرت میں طلب گار ہیں ترے |
| حاصل تجھے سمجھتے ہیں دونوں جہاں میں ہم |
| پیدا ہوا ہے اپنے لیے بوریائے فقر |
| یہ نیستاں ہے شیر ہیں اس نیستاں میں ہم |
| خواہاں کوئی نہیں تو کچھ اس کا عجب نہیں |
| جنس گراں بہا ہیں فلک کی دکاں میں ہم |
| لکھا ہے کس کے خنجر مژگاں کا اس نے وصف |
| اک زخم دیکھتے ہیں قلم کی زباں میں ہم |
| کیا حال ہے کسی نے نہ پوچھا ہزار حیف |
| نالاں رہے جرس کی طرح کارواں میں ہم |
| آیا ہے یار فاتحہ پڑھنے کو قبر پر |
| بیدار بخت خفتہ ہے خواب گراں میں ہم |
| شاگرد طرز خندہ زنی میں ہے گل ترا |
| استاد عندلیب ہیں سوز و فغاں میں ہم |
| باغ جہاں کو یاد کریں گے عدم میں کیا |
| کنج قفس سے تنگ رہے آشیاں میں ہم |
| اللہ رے بے قرارئ دل ہجر یار میں |
| گاہے زمیں میں تھے تو گہے آسماں میں ہم |
| دروازہ بند رکھتے ہیں مثل حباب بحر |
| قفل درون خانہ ہیں اپنے مکاں میں ہم |
| آتشؔ سخن کی قدر زمانے سے اٹھ گئی |
| مقدور ہو تو قفل لگا دیں زباں میں ہم |
2024-10-08