باتوں کے رنگ ، حُسن و ادا ساتھ لے گیا

باتوں کے رنگ ، حُسن و ادا ساتھ لے گیا
وہ شخص موسموں کی ہوا ساتھ لے گیا
آخر میں کس زباں سے اُسے بے وفا کہوں
جو خود ہی اپنا عہدِ وفا ساتھ لے گیا
کر کے وہ دان میرے خیالوں کو تِیرگی
اپنی محبتوں کی ضیاء ساتھ لے گیا
حُسنِ خیال ، حُسنِ طلب، حُسنِ آرزو
سب کچھ مِرا وہ میرے سِوا ساتھ لے گیا
یادوں کی تلخیاں مِرے دامن میں ڈال کر
اپنی عنایتوں کی رِدا ساتھ لے گیا
آیا تھا سر پِھرا کوئی اپنی تلاش میں
ناکام جستجو کی قَبا ساتھ لے گیا
رُخصت ہوا جو کل مِری بستی کا آدمی
آثم ! وہ ہر کسی کی دعا ساتھ لے گیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے